Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

" ارے دیکھیں' دیکھیں۔۔۔۔! رات کے اس پہر کیوں گئی فریدون کے کمرے میں۔۔۔ بھابی۔۔۔ پٹی بندھی تھی اپ کی انکھوں پر۔"

لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ دونوں سمجھ گئے کہ باہر کیا شور مچنے والا ہے۔۔۔۔ وہ دونوں کٹہرے میں ہوں گے۔

" رمضان کا مہینہ اور شکل دیکھو میسنی کی۔۔۔۔ میں تو آتے ہی سمجھ گئی تھی۔ مہمانوں کا استقبال کرنے کی بجاۓ فریدون سے گپیں لڑانے کھڑی ہو گئی محترمہ۔۔۔۔" ماما کی اواز سب سے بلند تھی۔ وہ ڈبڈبائی ہوئی نظروں سے فریدون کو دیکھنے لگی۔

اسی وقت واش روم کا دروازہ کھول کر ایوب باہر نکلا۔۔۔۔ ٹراؤزر اور بنیان پر گلے میں تولیہ ڈال کر ' گیلے بالوں کے ساتھ وہ ان دونوں کے سامنے کھڑا تھا۔ یعنی وہ وہیں تھا اسی کمرے میں۔

" یہ سب کیا ہے صبا۔۔۔۔؟" تائی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئیں ۔ ہانیہ اور انوشے کو باہر بھیج دیا۔

" معصوم بچیاں ہیں۔۔۔۔ انہیں کیا پتا ایسی حرکتوں کا۔" اس کی مٹھی میں دبا پانچ سو کا نوٹ تائی کے تھپڑ سے نیچے گر گیا۔۔۔ تایا ابو نے پہلی بار اسے شک بھری نظروں سے دیکھا۔

" پانچ سو! فریدون کی جیب سے نکلواۓ ہیں تو نے کمینی۔" دادی کا یہ لحجہ۔۔۔۔ پہلی بار سن رہی تھی وہ' اور کسی مجرم کی طرح سر جھکاۓ کھڑی تھی۔

" جی۔۔۔ کراۓ کے لیے ' لیے تھے صبا نے۔۔۔۔ واپس دار الامان جا رہی تھی۔" فریدون سے خاموش نہ رہا گیا۔ اس لمحے صبا کو صرف یہ فکر تھی کہ کہیں ایوب بھی اسے فریدون کے کمرے میں دیکھ کر غلط نہ سمجھ لے۔

" بولتی کیوں نہیں۔۔۔ چاہتی کیا ہے؟ کب سے چل رہا ہے یہ سب ؟" تائی نے سر سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔ وہ پیچھے کھڑے ایوب سے ٹکرا گئی ' اس نے بھیگی پلکیں اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔ کتنے رنگ تھے ان آنکھوں میں۔۔۔ وہ کچھ کہتا کیوں نہیں؟ وہ ایک جھٹکے سے مڑا۔۔۔ فریدون کی کپڑوں کی الماری کھول کر قمیض نکالی ۔۔۔ قمیض کے بٹن بند کر کے اس نے صبا کی کلائی تھام لی۔

" چلو۔۔۔۔"

" کہاں۔۔۔!" تقریبا سب ہی چیخے تھے۔

" یتیم خانے۔۔۔۔ ادھار کی چیز واپس کر آئیں تو بہتر ہے۔" وہ اسے گھسیٹتا لے گیا۔

جو ڈر اس کے دل میں جاگا تھا وہ سچ نکلا۔۔۔۔ دنیا ختم ہو گئی۔۔۔ جینے کا مقصد دم توڑ گیا۔۔۔۔ ایوب نے بھی اسے غلط سمجھ لیا ۔ وہ ہوش سے بیگانہ کسی روبوٹ کی طرح اس کے پیچھے گھسٹتی چلی گئی۔

رمضان المبارک کا آخری عشرہ چل رہا تھا' افطاری بازار سے آتی تھی۔ چپس کے فرش پر درختوں کے پتے اور پرندوں کی گندگی پڑی رہتی۔۔۔۔ میز پر رکھا گلدان ویران تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھا بار بار کچن کی کھڑکی کی طرف دیکھتا۔

بھائی! کیا واقعی اسے دار الامان چھوڑ آۓ' بہت محبت کرتی تھی' وہ اپ سے ۔۔۔ مجھے بھائی سمجھتی تھی اپنا۔ فریدون کا دل چاہا ایوب کا گریبان تھام لے مگر اس نے سختی سے منع کیا تھا کہ اب اس کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو گی۔

   0
0 Comments